Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 13

"اب کیسی طبعیت ہے مریام کی۔۔۔۔۔۔۔"وہ رُوم سے نکلے ڈاکٹر کی طرف لپکا۔ "پہلے سے بہتر ہے اور اب خطرے کی کوئی بات نہیں اُنکو رُوم میں شفٹ کر دیا گیا ہے کُچھ دیر تک ہوش بھی آ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔"ڈاکٹرز کے الفاظ اُسے پُرسکون کر گئے تھے۔وہ اُس کے رُوم میں داخل ہوا جہاں اسلم ایک سائیڈ پر کھڑا پہرہ دے رہا تھا۔ "یار تُم ایسے پڑے بلکل اچھے نہیں لگ رہے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکے سرہانے کھڑا ہو کر اُسکے پیلے چہرے کو دیکھنے لگا ایک دن میں ہی اُسکا شاداب چہرہ کملا کر رہ گیا تھا۔ابھی وہ اسے دیکھنے میں ہی مصروف تھا کہ اُسے ہوش آتا دیکھ کر وہ اس پر جُھکا جو اب آنکھیں کھول کر جگہ سے مانوس ہو رہا تھا۔ "شُکر ہے یار تُم نے آنکھیں کھولیں،ورنہ سچ میں میری جان نکلی جا رہی تھی کوئی ایسے بھی کرتا ہے مُجھے پریشان کرنے کی اب عادت بن چُکی تُم دونوں کی کیونکہ تم دونوں اچھی طرح جانتے ہو کہ میری جان بستی ہے تُم دونوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پیار بھرے لہجے میں ڈاٹنے لگا جس سے وہ ہلکا سا مُسکرا دیا۔ "تُمہاری جان ہم میں،ایسا تو نہ بولو ہم دونوں بخوبی جانتے ہیں کہ تُمہاری جان کس ہستی میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ معنی خیزی سے بولا تو وہ اپنی مُسکراہٹ روکتا بات بدل گیا۔ "آئم صوری میری جان،یہ سب میری وجہ سے ہوا اگر میں نہ۔۔۔۔۔۔۔۔" "ایسا مت بولو،یہ تو قسمت میں لکھی تھی ویسے بھی اگر مُجھے گولی نہ لگتی تو مُجھے پتہ کیسے چلتا کہ تُم مُجھ سے کتنی مُحبت کرتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ شرارت سے بولا تو وہ بھی مُسکراہٹ دباتا اسے گُھورنے لگا۔ "بُرہان نہیں آیا ابھی۔۔۔۔۔۔" "آیا تھا پر تُم تب ہوش میں نہیں تھے،آ جائے گا بلکہ راستے میں ہوگا،اچھا میں اب چلتا ہوں کوئی میرا انتظار کر رہا ہے،بائے۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا وہ اُس کے کمرے سے نکل گیا۔

"___________________________________"

"یہ بابا سائیں کہاں گئے،کل کے نظر نہیں آئے،کسی ملازم کو بھی پتہ نہیں کہ وہ کہاں گئیے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"شہباز بلوچ نے پریشانی سے اپنی پیشانی کو مسلا وہ رات سے قادر بلوچ کے نمبر پر کال کر کر کے تھک چُکا تھا مگر اُسکا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا وہ اُسکی تلاش میں بلوچ ھاؤس آیا تھا مگر وہاں بھی اُسے قادر بلوچ کی موجودگی کا کوئی نشان نہ ملا تھا۔وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا کہ کسی نے پُکارا۔ "سائیں۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے مُڑ کر دیکھا وہ گُھمن تھا۔ "ہاں بولو گُھمن۔۔۔۔۔۔" "چھوٹے سائیں،بلوچ سائیں کا ُمجھے پتہ ہے کہاں ہیں وہ۔۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں بتاؤ کہاں ہیں وہ۔۔۔۔۔۔"شہباز بلوچ بے چینی سے بولا۔ "کل بلوچ سائیں اور جونیجو جوئے والے اڈے پر گئے تھے،وہاں مریام شاہ آیا اور اُس نے دونوں کو بیہوش کر دیا پھر اُس کے بندے اُن دونوں کو گاڑی میں ڈال کر لے گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"گُھمن کی بات پر وہ چونکا۔ "کیا بکواس کر رہے ہو گُھمن۔۔۔۔۔۔۔۔" "بکواس نہیں ہے سائیں بلکل سچ ہے،میں واش رُوم گیا تو میرے واپس آنے سے پہلے مریام شاہ اور اُس کے بندے چاروں طرف پھیل گئے تھے سائیں اور میں ڈر کر وہاں سے بھاگ آیا اور ابھی بھی مُجھے بہت ڈر لگ رہا سائیں کہیں وہ ہم تک نہ پہنچ جائے۔۔۔۔۔۔۔"وہ خوفزدہ لہجے میں بولتا شہباز بلوچ کے غُصے کو ہوا دینے لگا۔ "یہ بُزدلوں والی باتیں مت کرو،اب وقت آ گیا ہے مریام شاہ کو اُسکی اوقات بتانے کا تُم سب کو بلاؤ آج ہی اُس مریام شاہ کی عقل کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں اُسکی اتنی ہمت میرے بابا سائیں کو اغوا کیا،اُس مریام شاہ کو تو میرے ہاتھوں اب کوئی نہیں بچا سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی آنکھوں میں نفرت کی چنگاریاں پُھوٹنے لگیں۔ "سائیں اس وقت جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا وقت ہے،ہم اس وقت بے بس ہیں کیونکہ بلوچ سائیں اُسکی قید میں ہیں وہ اُنکے ساتھ کوئی سلوک بھی کر سکتا۔۔۔۔۔۔۔"گُھمن اُسکو اپنی چال کی سمت لانے لگا جس پر وہ کامیاب بھی ہونے لگا۔ "کہنا کیا چاہتے ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔" "دیکھو سائیں تُم اس وقت اکیلے ہو چاہے ہم سب گارڈذ آپکے ساتھ ہیں پر آپ کے بابا سائیں اور ایاز سائیں تو نہیں نہ،آپ کو تو مریام شاہ کے ٹھکانوں کا علم بھی نہیں اگر ہو بھی گیا تو وہاں حملہ کریں گئے تو نُقصان بھی ہمارا ہی ہوگا وہ ہمارے بلوچ سائیں کے ساتھ کُچھ بھی کر سکتا اس کے لیے ہمیں پُورا منصوبہ بنانے کی ضرورت ہے وہ بھی بلوچ سائیں کے دوستوں کے ساتھ مل کر جیسے راٹھور سائیں اور حاکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔"گُھمن نے آہستہ سے کہتے ہوئے کن انکھیوں سے اس کے بدلتے تاثرات کا جائزہ لیا۔ "راٹھور اور حاکم،تُم کیسے جانتے ہو انکو۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے سوال پر گُھمن ہلکا سا مُسکرایا۔ "ارے سائیں آپ بھی کمال کرتے ہیں بلوچ سائیں مُجھ پر اتنا اعتماد کرتے ہیں وہ کئی دفعہ اُنکا زکر کر چُکے۔۔۔۔۔۔" "بابا سائیں اس سے زکر کرتے رہے،پر وہ تو ہم سے اُنکا زکر کرنا گوارا نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔"شہباز بلوچ سوچ میں پڑ گیا۔ "سائیں کیا سوچنے لگے۔۔۔۔۔۔" "کُچھ نہیں ،کہتے تو تُم ٹھیک ہو پر میں نے ان دونوں کو نہ تو دیکھا ہے اور نہ اُنکی آواز سُنی ہے اس لیے مُجھے سمجھ نہیں آ رہی اُن سے کیسے رابطہ کروں۔۔۔۔۔۔۔۔"شہباز بلوچ شش و پنج میں پڑ گیا گُھمن نے غور سے اسکے چہرے کی طرف دیکھا جس پر اُسکی بات کی سچائی درج تھی کہ وہ ان دونوں کو صرف نام کی حد تک جانتا تھا۔ "پھر آپ تھانے میں رپورٹ کروائیں اور دُوسرا میڈیا پر یہ خبر پھیلا دیں کہ ایم این اے قادر بلوچ اغوا ہو گئے کس نے کیا یہ مت بتائیے گا پھر دیکھیے گا کیسے آپ سے رابطہ کرتے راٹھور سائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"گُھمن کے مشورے پر وہ فوری عمل کرتا گاڑی تھانے کے راستے ڈال گیا گُھمن نے موبائل جیب سے نکال کر ایک نمبر پر یس کر کے کان سے لگا لیا۔ "سر آپ کا شک دُرست نکلا شہباز بھی اُن دونوں کو بس نام کی حد تک جانتا ہے،جی اب وہ ہمارے دوسرے پلان کے مُطابق تھانے چلا گیا،جی سر،اوکے سر۔۔۔۔۔۔۔"بات ختم کرکے موبائل جیب میں رکھ کر چل دیا۔

"__________________________________"

"جونیجو۔۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ اسے روبرو پا کر چُونک اُٹھا جو کہ بلیک جینز پر آف وائٹ شرٹ جس کے اُوپر گرے جرسی پہنی ہوئی تھی حسب معمول شرٹ کے بازو فولڈ کیے ہوئے تھے۔ "کیسے ہو بلوچ،ایک رات میں کُچھ بدلہ تو نہیں تُمہارا۔۔۔۔۔۔"وہ اس سے کُچھ فاصلے پر بیٹھ کر سگریٹ اور لائٹر نکال کر سگریٹ مُنہ میں رکھ کر لائٹر کی مدد سے جلانے لگا۔ "تُم،تُم نے مُجھے اغوا کیا پر کیوں۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکے انداز اور اُسکی یہاں موجودگی پر حیران تھا۔ "کیوں تُمہیں میں اغوا نہیں کر سکتا کیا۔۔۔۔۔"وہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے سگریٹ کا دُھواں مُنہ سے نکال کر بولا۔ "تُم کس کے آدمی ہو،کیا مریام شاہ کے،تُم جان بوجھ کر میرے پاس آئے تھے،بتاؤ جونیجو کون ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔" وہ اپنے ہاتھوں کو رسیوں سے چُھڑانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔ "میں کہتا ہوں بتاؤ کون ہو تُم۔۔۔۔۔۔"وہ طیش میں آنے لگا۔ "میں کون ہوں،یہ جاننا ہے تُمہیں تو سُنو پھر میں مریام شاہ ہوں،مریام حسن شاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اس انکشاف پر بلوچ کے اعصاب کو زور کا جھٹکا لگا وہ بے یقینی سے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگا۔ "مریام شاہ،نہیں تُم مریام شاہ نہیں ہو سکتے جونیجو،مریام شاہ تو وہ تھا جسے گولی ماری جو مر گیا ،مریام شاہ تو مر چُکا ہے۔۔۔۔۔" "اچھا تو مریام شاہ کو مار دیا تُم نے۔۔۔۔۔۔"وہ ذہرخند مُسکرایا۔ "یہ تُمہاری زندگی کی سب سے بڑی خُوش فہمی تھی بلوچ کہ تُم نے مریام شاہ کو مار دیا اور وہ مر گیا،میں تو تُمہارے سامنے رہا ہمیشہ تو تُم نے کب مارا مُجھے۔۔۔۔۔۔۔" "جونیجو تُم مریام شاہ ہو تو وہ کون تھا۔۔۔۔۔۔۔"بلوچ کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ "اُسامہ شاہ،نیاز علی شاہ کا بیٹا جانتے ہو نہ اُسے تُم۔۔۔۔۔۔۔"وہ سگریٹ کا لمبا سا کش لے کر اُس کی بدلتی رنگت کو دیکھنے لگا جس کا سارا وجود جیسے زلزلے کی زد میں آ گیا تھا۔ "کیا،تو تُم مریام شاہ ہو،یہ سب کیسے مُمکن ہے،اتنے سالوں سے ہمیں بیوقوف بنایا۔۔۔۔۔۔۔"شاید وہ ابھی بھی اس سچائی کو ہضم نہیں کر پا رہا تھا کہ جسے اتنے سالوں سے مریام شاہ سمجھ کے اُسکی حرکات پر نظر رکھتے رہے اصل میں وہ مریام شاہ تھا ہی نہیں اور جو تھا وہ تو کتنی آسانی سے انکے ساتھ کھیلتا رہا۔ "تُمہیں بیوقوف بنانا کوئی اتنا مُشکل کام تو نہیں تھا میرے لیے اور نہ تُم سے اپنی اصلیت چُھپانا میں ضروری سمجھتا تھا مگر وہ کیا ہے نہ میری بیوی تُمہارے پاس تھی میرے تایا سُسر جی،اُس کے لیے مُجھے ایسا کرنا پڑا ورنہ ایک مریام شاہ سو بلوچوں پر بھاڑی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سگریٹ زمین پر پھنیک کر اُسے جوتے سے مسلتا اُسکی طرف دیکھنے لگا جس کے چہرے پر ایسا خوف تھا جیسے سگریٹ کی راکھ کی جگہ اُسکا وجود ہو یہ سوچتے ہوئے بلوچ جھرجھری لے گیا جبکہ مریام شاہ کی مُسکراہٹ نفرت میں بدلنے لگی۔ "فکر نہ کرو موت تو تُمہیں اس سے بھی بدتر دُونگا پر اُس سے پہلے تُمہیں اس ساری کنفیوزن سے ضرور نکالوں گا تا کہ مرنے سے پہلے تُمہاری یہ ساری اُلجھن دور ہو جائے اب مریام شاہ اپنے سُسر پر اتنا احسان تو ضرور کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔" "تُم نے مُجھے دھوکا دیا،بلوچ کو دھوکا دیا تُم نے۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی اکڑ ابھی بھی وہی تھی۔ "کیوں تُم جب اپنے سگے بھائی کو دے سکتے ہو تو میں تُمہیں نہیں دے سکتا،ابھی تو بہت کُچھ تُمہیں سود سمیت لوٹانا ہے بلوچ۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کا لہجہ نہ صرف سپاٹ تھا بلکہ اُسکی آنکھوں میں پھوٹتی نفرت کی شُعائیں بلوچ کی بولتی بند کر گئیں اُسکی رنگت لمحے کے ہزارویں حصے میں فق ہوئی تھی۔

"__________________________________" ماضی

لال حویلی جہاں قادر بلوچ اور وجاہت بلوچ رہائش پذیر تھے دونوں بھائی ایک باپ کی تو اولاد تھے مگر دو ماؤں کی اولاد ہونے کی وجہ سے انکی کبھی نہیں بنی تھی وجاہت بلوچ تو ہمیشہ اُسے بڑے بھائی والا درجہ دیتا تھا مگر قادر بلوچ کے دل و دماغ میں اُس کے لیے بس نفرت ہی تھی اور یہ نفرت تب مزید گہری ہوئی جب وجاہت بلوچ سندھ کا وزیر قانون بنا اور قادر بلوچ جو کالے دھندوں میں پڑ چُکا تھا وہ گرفتار ہوا تو وجاہت بلوچ نے اُسے چھڑوانے کے بجائے اُسکو دو سال کی سزا بُھگتنے کا کہا تا کہ آئندہ سے وہ ان کاموں میں نہ پڑے مگر قادر بلوچ جب دو سال کے بعد جیل سے رہا ہو کر آیا تو وہ وجاہت بلوچ کی نفرت اور اُس سے انتقام کی آگ میں جل رہا تھا اُس نے وجاہت خاں کے دُشمنوں کے ساتھ مل کر اُسکے قتل کا بڑا بھیانک پلان بنایا تھا جسکا ٹائم اُسے جلد ہی مل گیا۔ وجاہت بلوچ جس کے چھ سالہ اکلوتے بیٹے ساحل کی سالگرہ تھی جس کے لیے اُس نے بہت بڑی پارٹی ارینج کروائی تھی پُوری لال حویلی کو دُلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا وہی اُنکی بیگم حُسنہ نے اپنی لاڈلی بیٹی پرخہ کے نکاح کا فیصلہ کیا جو اُس کے بھائی حسن شاہ کے سترہ سالہ بیٹے مریام شاہ کے ساتھ بچپن سے طے تھا۔اس لیے آج لال حویلی کی گہما گہمی عروج پر تھی شاہ پیلس سے بھی سب آ چُکے تھے مریام شاہ کی اکلوتی خالہ سعدیہ بیگم بھی اپنے شوہر نیاز علی شاہ اور اکلوتے بیٹے اُسامہ کے ساتھ آ چُکیں تھیں۔ "بگ برو آپکی شادی ہے پرخہ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔"تیرہ سالہ بُرہان شاہ جو ابھی سب سُن کے آیا تھا بھاگتا ہوا مریام شاہ کے پاس آیا جو اپنے ہم عُمر اور کلاس فیلو اُسامہ کے ساتھ گپیں لڑا رہا تھا اُسکی بات پر بھونچکا رہ گیا۔ "ارے واہ،ایسا کس نے بولا۔۔۔۔۔"اُسامہ پُرجوش ہوا۔ "بابا اور پھوپھو نے بتایا کہ بگ برو کی شادی ہے آج پرخہ سے،پرخہ کو اب میں بھابھی کہا کروں۔۔۔۔۔۔"بُرہان مُسکراتا ہوا بول رہا تھا اُسامہ نے اسکی طرف دیکھا جو بے تاثر چہرہ لیے کھڑا تھا۔ "مریام ادھر آؤ بیٹا۔۔۔۔۔۔۔"حسن شاہ کے بُلانے پر انکے نزدیک آ گیا۔ "بُرہان نے بتا دیا ہوگا سب،تُم جانتے ہو نہ بچپن سے تُمہارا اور پرخہ کا رشتہ طے تھا جسکی وجہ سے حُسنہ نے کہا کہ آج نکاح کر کے اس رشتے کو اور مضبوط کر دیتے ہیں،کیا کہتے ہو تُم۔۔۔۔۔۔۔۔"حسن شاہ نے نرمی سے اُسے پوچھا جو دوسری طرف جھولے پر بیٹھی دس سالہ پرخہ کو دیکھ رہا تھا جس نے گلابی رنگ کا لہنگا پہنا ہوا تھا۔ "شی از سو کیوٹ ڈیڈ۔۔۔۔۔۔"اُس نے پانچ حروفی بات کی تھی اور اُسامہ لوگوں کی طرف چل دیا۔حسن شاہ جو اپنے بیٹے کی رگ رگ سے واقف تھے اُسکی بات پر مُسکراتے ہوئے اندر کی جانب بڑھے۔ دو گھنٹے کے بعد پرخہ اور مریام شاہ کو نکاح کے بندھن میں باندھ دیا گیا سب خُوشی خُوشی ہلہ گُلہ کرنے لگ پڑے اس چیز سے انجان کہ آنے والے پل اُنکے لیے عذاب بن کے آ رہے تھے۔

   0
0 Comments